تمہیں کیسے بتائیں ہم

تمہیں کیسے بتائیں ہم
Ù…Ø+بت اور کہانی میں کوئی رشتہ نہیں ہوتا
کہانی میں
تو ہم واپس بھی آتے ہیں
Ù…Ø+بت میں پلٹنے کا کوئی رستہ نہیں ہوتا
ذرا سوچو !
کہیں دل میں خراشیں ڈالتی یادوں کی سفاکی
کہیں دامن سے لپٹی ہے کسی بھُولی ہوئی
ساعت کی نم ناکی
کہیں آنکھوں کے خیموں میں
چراغِ خواب گُل کرنے کی سازش کو
ہوا دیتی ہوئی راتوں کی چالاکی
مگر میں بندہ خاکی
نہ جانے کتنے فرعونوں سے اُلجھی ہے
مرے لہجے کی بے باکی
مجھے دیکھو
مرے چہرے پہ کتنے موسموں کی گرد
اور اِس گرد کی تہہ میں
سمے کی دھُوپ میں رکھا اِک آئینہ
اور آئینے میں تا Ø+د نظر پھیلے
Ù…Ø+بت Ú©Û’ ستارے عکس بن کر جھلملاتے ہیں
نئی دنیاؤں کا رستہ بتاتے ہیں
اِسی منظر میں آئینے سے اُلجھی کچھ لکیریں ہیں
لکیروں میں کہانی ہے
کہانی اور Ù…Ø+بت میں ازل سے جنگ جاری ہے
Ù…Ø+بت میں اک ایسا موڑ آتا ہے
جہاں آ کر کہانی ہار جاتی ہے
کہانی میں تو کُچھ کردار ہم خود فرض کرتے ہیں
Ù…Ø+بت میں کوئی کردار بھی فرضی نہیں ہوتا
کہانی کو کئی کردار
مل جُل کر کہیں آگے چلاتے ہیں
Ù…Ø+بت اپنے کرداروں Ú©Ùˆ خود Ø¢Ú¯Û’ بڑھاتی ہے
کہانی میں کئی کردار
زندہ ہی نہیں رہتے
Ù…Ø+بت اپنے کرداروں Ú©Ùˆ مرنے ہی نہیں دیتی
کہانی کے سفر میں
منظروں کی دھُول اُڑتی ہے
Ù…Ø+بت Ú©ÛŒ مُسافت راہ گیروں Ú©Ùˆ بکھرنے ہی نہیں دیتی
Ù…Ø+بت اِک شجر ہے
اور شجر کو اس سے کیا مطلب
کہ اس کے سائے میں
جو بھی تھکا ہارا مُسافر آ کے بیٹھا ہے
اب اُس کی نسل کیا ہے ، رنگ کیسا ہے
کہاں سے آیا ہے
کس سمت جانا ہے
شجر کا کام تو بس چھاؤں دینا
دھُوپ سہنا ہے
اُسے اِس سے غرض کیا ہے
پڑاؤ ڈالنے والوں میں کس نے
چھاؤں کی تقسیم کا جھگڑا اُٹھایا ہے
کہاں کس عہد کو توڑا ، کہاں وعدہ نبھایا ہے
مگر ہم جانتے ہیں
چھاؤں جب تقسیم ہو جائے
تو اکثر دھُوپ کے نیزے
رگ و پَے میں اُترتے ہیں
اور اس کے زخم خوردہ لوگ
جیتے ہیں نہ مرتے ہیں !
Ù+Ù+Ù+